الہدی انٹرنیشنل اور علماء اھلسنت میں بقائے باھمی کے امکانات
ڈاکٹر فرحت ھاشمی اور الہدی انٹرنیشنل از قاری حنیف

ھماری مسجد اور مدرسہ چونکہ وفاق المدارس دیوبند کے ساتھ الحاق رکھتا ھے لہذا ھم امام و خطیب و مدرس جامعہ فریدیہ یا فاروقیہ راوالپنڈی سے لیتے ھیں، ھمارے قاری حفظ الرحمٰن جو کہ تازہ تازہ فارغ ھوئے تھے جامعہ فریدیہ سے انہیں ھم نے اچک لیا قاری صاحب بہت باخلاق انسان تھے،بلکہ نوجوان تھے ،اپنے اخلاق کے زور پہ انہوں نے ماشاء اللہ قصبے کے لوگوں کی حالت بدل کر رکھ دی ،چلتے چلتے انہوں نے مجھے کتابوں کا ایک سیٹ تحفے میں دیا ،جن کے درمیان ایک کتاب “الہدی انٹرنیشنل کیا ھے” نامی کتاب بھی رکھ دی جو کہ مفتی محمد اسماعیل طورو صاحب کا کتابی فتوی تھا، ھم فتوے کے لئے اپنے قصبے سے لوگوں کو مفتی طورو صاحب کے پاس ھی بھیجا کرتے ھیں ابوظہبی آ کر میں نے جب وہ کتابیں چیک کیں تو ان میں یہ کتاب پا کر میں نے اس کا مطالعہ کیا اس پوری کتاب میں کوئی بھی دلیل ایسی سنجیدہ نہیں تھی جس کا اتنا سخت نوٹس لیا جاتا اور فتوی جاری کیا جاتا سارا زور این جی اوز کی سرگرمیوں پر تھا،جس میں عاصمہ جیلانی اور دیگر خواتین کے کارنامے گنوائے گئے تھے اور صرف این جی او کا نام مشترک ھونے کی وجہ سے انہیں اس الہدی انٹرنیشنل نام کی این جی او پر لاگو کر دیا گیا حالانکہ سارے دینی مدارس ملک کی سب سے بڑی این جی اوز ھیں اور اس نام کے ناتے سے جو کچھ ڈاکٹر فرحت ھاشمی پہ لاگو ھوتا ھے وہ سب دینی مدارس پہ لاگو ھوتا ھے

سب سے پہلے تو یہ جائزہ لیا جانا ضروری تھا کہ ڈاکٹر صاحبہ کی سرگرمیوں سے کون سی چیز پروموٹ ھو رھی ھے،پھر دیکھنا یہ تھا کہ ان کا کام دین کے لئے نفع رساں ھے یا فائدہ مند،معاشرے کے لئے مثبت ھے یا منفی ،اور یہ امر بالمعروف کی کوئی قسم ھے یا امر بالمنکر قسم کی،پھر اس کے عملی اثرات کا ایک جائزہ پیش کرنا چاھیئے تھا کہ اس کام کے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ھو رھے ھیں اور آگے چل کر یہ کیونکر معاشرے یا دین کو ضرر پہنچا سکتے ھیں خیر ھم اسی انداز میں اس تحریک کا ایک جائزہ لیتے ھیں

عورت انسانی سماج کا اھم ترین عنصر ھے یہ انسان گر ھے،انسان کو پیدا کرتی ھے،اور انسان کو پالتی پوستی اور ایک حقیقی انسان بناتی ھے ،جس قدر اھمیت کائنات میں انسان کی ھے،اسی نسبت سے عورت کی اھمیت معاشرے میں ھے ،یہ بات ھم جانیں یا نہ جانیں شیطان اور اس کے چیلے چانٹے یہ بات بخوبی جانتے ھیں،کہ عورت ھر انسان کی “ماسٹر کی” یا شاہ کلید ھے،اس کے ذریعے انسان کو لاک بھی کیا جا سکتا ھے اور ان لاک بھی کیا جا سکتا ھے ،حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد کو ماں نے ھی خراب کیا تھا اس سے اپ اندازہ لگا سکتے ھیں کہ ایک اولوالعزم رسول کا گھر بھی ایک عورت کی وجہ سے برباد ھو گیا،اس کی اھمیت کے پیش نظر شیاطین اور شیطانی اداروں نے ھمیشہ سے عورت کو اپنا ٹارگٹ رکھا ،جبکہ ھم نے ھمیشہ اس کے برخلاف رویہ اختیار کیا بجائے اس کے کہ ھم عورت پر زیادہ سے زیادہ توجہ دیتے اور اس کی تعلیمی اور فکری تطہیر و تزکیئے کا بندوبست کرتے ھم نے اسے فتنہ گردان کر مساجد سے دور کر دیا اور اجتماعی دینی سرگرمیوں سے روک دیا ،اسے جمعے اور جماعت،نیز عیدین کے اجتماعات و خطبات سے بھی محروم کر دیا،ظاھر ھے دین سے بے بہرہ عورت اولاد کو کیا سکھا سکے گی،اور معصوم بچے کے ان سوالات کا کیا جواب دے گی جو ابتدا میں تو افیم کے پودے کے پھول کی طرح بہت معصوم مگر آگے چل کر انتہائ ایمان لیوا بن جاتے ھیں.

اسلام آباد جسے ترقی یافتہ اور مادر پدر آزاد شہر میں لڑکیوں کی جو حالت ھو گی اس کا صرف تصور ھی کیا جا سکتا تھا،کیونکہ جب گاؤں کے حالات یہ ھیں کہ وھاں لڑکیوں کے لباس دیکھے نہیں جاتے تو شہر کا تو باوا آدم ھی نرالا ھو گا ان حالات میں اللہ پاک نے ٹھیک اپنی سنت کے مطابق ایک عورت کو اٹھایا ،وہ عورت کوئی بہت بڑی فلاسفر نہیں تھی ،انٹرنیشنل فورمز پر انعامات اور میڈلز لینے والی نہیں تھی،ایک پردہ دار خاتون اٹھتی ھے ،اور ایک کام کا بیڑہ اٹھاتی ھے ،جن گھرانوں کو ھم مسلمانی سے خارج کر کے جہنم کے حوالے کر چکے تھے،جن کی بچیاں بیوٹی پارلر چلاتی اور بیوٹی پارلر جاتی تھیں ،اس عورت نے انہیں پہ ھاتھ رکھا،انہی کو آئی سی یو والا مریض سمجھا یکہ و تنہا عورت اس معاشرے میں اٹھتی ھے جہاں دین کی نسبت سے عورت کا کوئی دینی رول نہیں ھے اور اس طرح چھاتی چلی جاتی ھے کہ اس کی مثال ھماری اسلامی تاریخ میں کوئی عورت پیش نہیں کر سکتی.

اس کی تحریک کی مثل پوری اسلامی تاریخ مین نہیں ملتی اور اس کو ملنے والی پذیرائی بھی بے مثل ھے اور بول بول کر چیخ چیخ کر نصرتِ الہی کا اعلان کرتی ھے کل تک جہاں بیوٹی پارلرز کے بورڈز لگے تھے اور جینز اور شرٹ میں ملبوس پریاں آتی جاتی تھیں ٹھیک انہی ولاز کے باھر درسِ قرآن کے بورڈز آویزاں ھو گئے اور دن رات سراپا پردے میں ملبوس حوریں آنے جانے لگ گئیں جو امریکن لہجے میں انگریزی بولتی تھیں تو ٹھیک عربی لہجے میں قرآن پڑھتی تھیں ربانی نصرت کے بغیر یہ مکمن نہیں تھا بڑے بڑے بیوروکریٹس کی بیٹیاں، بیویاں جو اعلی تعلیم یافتہ تھیں،ایم بی بی ایس ڈاکٹرز تھیں، جو اس تحریک کا ھراول دستہ بنیں اور یہ تحریک شہروں سے نکل گاؤں تک جا پہنچی. پاکستان سے نکل کر پوری دنیا مین پھیل گئ.

علماء کے فتوے بھی چلتے رھے ،ملامت کی بوچھاڑ بھی چلتی رھی ،یہود کی ایجنٹ کے الزامات بھی چلتے رھے اور اللہ والوں کا کام بھی جاری و ساری رھا. تحریکِ الہدی اوراس کے مثبت اور منفی اثرات

:

۔ الہدی کی مساعی کا سب سے پہلا نتیجہ جو نکلا وہ نفسیاتی تھا اس نے پڑھے لکھے گھرانوں کو یہ یقین دلا دیا کہ اللہ کی کتاب تک ان کی رسائی بھی ممکن ھے اور یہ کسی خاص طبقے کی یرغمال کتاب نہیں ھے ،آپکی بچیاں بھی اللہ سے ھمکلام ھو سکتی ھیں ،اس یقین و اعتماد نے ان میں بجلی بھر دی،اور وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ اسی کتاب کو لے کر بیٹھ گئیں ،کتاب اللہ سے ان کا یہ التزام مجبوراً نہیں تھا بلکہ ان کی محبت اور ذوق و شوق کا آئینہ دار تھا ،جو بچے بچیاں بھوک کے مارے مدرسوں میں جاتے ھیں،ان کے علم حاصل کرنے اور ان کے علم حاصل کرنے میں نفسیاتی طور پر وھی فرق تھا جو ایک مزدور اور ایک بزنس مین کے کام کرنے میں ھوتا ھے،ایک صرف وقت پورا کرتا ھے جبکہ دوسرا جان
لڑا دیتا ھے

۔ الہدی کی جدوجہد نے توحید کی آبیاری کا کام کیا اور شرک و بدعت کی امریکن سنڈی کا قلع قمع کرنے میں ھراول دستے کا کام کیا عورت شرک و بدعت کی سب سے بڑی کیرئیر ھے ،یہ جعلی پیروں اور شعبدے باز ایمان کے لٹیروں کا سب سے آسان ھدف بھی ھے اور فری کی مارکیٹنگ ایجنٹ بھی ھے یہ بڑے بڑے توحید کے نام لیواؤں کو درباروں پر لے جاتی ھے اور تعویز گنڈے پر راضی کر لیتی ھے،اس کی رات گئے کی ھپنوٹیسی کبھی رائیگاں نہیں جاتی ،الہدی نے شرک و بدعت کی شاہ رگ پہ جا کر چھری رکھ دی اور عورتوں کو توحید کی ایجنٹس بنا دیا، شیطان کے چنگل سے آزاد کرا کر اللہ اور اس کے رسولﷺ کے رستے پر لگا دیا ،چونکہ یہ محبت کے ساتھ دین سے جڑی تھیں تو اللہ پاک نے بھی “یُحبِبکُمُ اللہ “کا وعدہ سچ کر دکھایا،اس کا ثبوت ان کا عمل ھے،ان کی تبلیغ اور ان کے ذاتی عمل میں کوئی تضاد نہیں ھے،وہ جو کہتی ھیں وہ کرتی بھی ھیں اور کرتی نظر بھی آتی ھیں.

ھمارے گاؤں کی ایک لڑکی کشمیری برادری میں سے کورس کر کے آئی ھے،اس نے پوری برادری تبدیل کر کے رکھ دی ھے،شادی بیاہ کی رسموں سے لے کر فوتگی تک سب رسموں کو ختم کرا دیا ھے،اپنی والدہ فوت ھوئی تو چالیسویں پہ برادری والوں نے اسے کہا کہ اپنا درسِ قرآن رکھ لو اور لوگوں کو دعوت دیتے ھیں ،اس نے کہا کہ چالیسویں پہ کیوں ؟ گویا اپ کسی نہ کسی بہانے بندے ضرور اکٹھا کرنا چاھتے ھیں، میں درس دو دن بعد رکھ لوں گی مگر چالیسواں نہیں ھونے دوں گی حقوق العباد کے ادا کرنے میں، پڑوسیوں کے حقوق کا خیال رکھنے میں اور اپنے ارد گرد کے غریبوں یتیموں اور بیواؤں کی مالی مدد کرنے میں پیش پیش ھیں یہاں ابوظہبی میں بھی ان کی قرآن کلاسز کا مستقل سلسلہ چل رھا ھے جس سے شادی شدہ بال بچے دار عورتوں سے لے کر جوان بچیوں تک سب استفادہ کر رھی ھیں ان کی کلاسز میں شوھر کے حقوق کے علاوہ نند اور ساس سسر سے تعلقات پر بھی خصوصی توجہ دی جاتی ھے، نتیجے میں الہدی سے متعلق جوڑوں میں ازدواجی تعلقات کے ساتھ ،ساس سسر والا سینڈروم بھی قابو میں ھے الہدی اور منفی اثرات الہدی کو سلفیت نے کیش کروایا اور یوں معاشرے کے گراس روٹ تک اس کی پہنچ کو ممکن بنایا. یہی وہ وجہ ھے جس نے علماء کے کان کھڑے کیئے اور وہ لے دے کر ڈاکٹر فرحت ھاشمی کے پیچھے پڑ گئے. علماء بخوبی جانتے ھیں کہ وہ یہود کی ایجنٹ نہیں، مگر وہ سلفیت جو کہ حنفیت کی سوتن ھے،اس کی پروموشن سے ھراساں ھیں.

اگر ڈاکٹر فرحت ھاشمی بچیوں کو چھوڑ دیتیں کہ وہ نماز وغیرہ اپنے والدین کے طریقے کے مطابق پڑھتی رھیں تو شاید یہ مخالفت اتنی شدید نہ ھوتی ،نیز اگر فتوے وغیرہ جاری نہ کرتیں تو بھی اس ٹکراؤ کو روکا جا سکتا تھا ،مگر انہوں نے بھی وھی غلطی کی اور وھیں غلطی کی جہاں اور جو غلطی ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب نے کی حدیث سے کسی کا اختلاف نہیں مگر حدیث کا جو مطلب لیا جا رھا ھے اس پر بہت ساری رائے بن جاتی ھیں،اور مسلمان آزاد ھیں کہ وہ ان میں سے کوئی بھی رائے اختیار کر لیں یہی آزادی ھر مسلک کو اپنے پیروکاروں کو دینی چاھیئے تا کہ مسالک کی باؤنڈریاں ٹوٹیں اور آپس کے تعصبات ختم ھو کر برداشت کا کلچر نشو ونما پائے جیسا کہ عرب دنیا میں ھے،ایک ھی مسجد میں ھر مسلک کا بندہ کندھے سے کندھا ملائے کھڑا ھوتا ھے، کسی کو کسی سے کوئی عداوت نہیں اور نہ کسی کو کسی دوسرے کی نماز پر اعتراض،امام ایک مسلک کا ھے تو مقتدی چار مسالک کے پیچھے کھڑے ھیں. کیا کوئی یہ تصور کر سکتا ھے کہ پاکستان میں بھی یہ منظر پیش کیا جا سکتا ھے ؟ لیکن ڈاکٹر فرحت ھاشمی کی اپنی عملی مجبوریاں ھیں ،اس کے پاس آنے والی لڑکیاں صمٓ بکمٓ عمیٓ نپہں ھیں یہ لڑکیاں ان اداروں میں وہ علم پڑھ کر آئی ھیں جہاں سکھایا ھی سوال کے ذریعے جاتا ھے اور دین میں سوال محمود نہیں سمجھا جاتا، یا کم از کم علماء اس کو پسند نہیں کرتے. اب اگر ایک شخص کسی حنفی عالم سے مسئلہ پوچھے تو جواب دے دیا جائے گا سورس پوچھے تو کتاب کا نام بتا دیا جائے گا، بلکہ بڑے سے بڑے حنفی ادارے سے فتوی لے لیجئے، کذا فی شامی، و کذا فی تاتارخانیہ، و کذا فی عالمگیری کا جواب آئے گا.

آپ مولوی صاحب سے پوچھ لیں کہ عالمگیری والوں نے کس آیت یا حدیث کو ماخذ بنایا ھے اپنے فتوے کا ؟ تو وہ پوچھیں گے کہ آپ اھلِ حدیث تو نہیں ؟ کیونکہ مقلد تو یہ سوال نہیں پوچھتا وہ تو مولوی صاحب کا فرمایا ھوا اللہ اور رسولﷺ کا فرمایا ھوا سمجھتا ھے اب جب یہ لڑکیاں ڈاکٹر صاحبہ سے سوال کرتی ھیں تو فوری دستیاب ماخذ تو حدیث ھے ،جھٹ سے نکالا دکھا دیا ،ھماری فقہ میں دلیل ڈھونڈ کر کسی کو مطمئن کرنا پوری لائبریری الٹ پلٹ کرنا ھوتا ھے ،سیدھا دو اور دو چار کی طرح جواب نہیں ھے صحابہؓ کا تعامل پیش کرو تو جواب ملتا ھے یہ رسول کب سے ھو گئے؟ یہ بھی ھماری طرح امتی تھے اور انکی نجات بھی نبیﷺ کے اتباع میں تھی نہ کہ وہ نبیﷺ کے شانہ بشانہ شریعت سازی کا کوئی برابر درجے کا ادارہ تھے الغرض اس قسم کے نوجوانوں کی بڑھتی تعداد نے علماء کو الہدی کے خلاف بھڑکایا ھے ،اس کے علاوہ اور کوئی ٹھوس وجہ مخالفت نہیں ،بس مسلک کے دفاع میں الہدی کی مخالفت ضروری ھے یہ بات آپ کو الہدی کے خلاف دیئے گئے ھر فتوے میں نظر آئے گی پھر علماء دیوبند جو کہ برصغیر میں توحید کے سرخیل اور علمبردار تھے ان کی توحید اور ڈاکٹر فرحت کی توحید میں زمین آسمان کا فرق ھے. علمائے دیوبند کی توحید کو تصوف کے تڑکے نے انتہائی لچکدار بنا رکھا ھے جبکہ ڈاکٹر فرحت ھاشمی کی توحید 24 کیریٹ کے سونے کی طرح خالص ھے یوں ڈاکٹر صاحبہ کی یہ توحید کی دعوت اور اس کا پھیلاؤ بھی علماء کے لئے کسی ریلیف کا سبب نہیں بلکہ اشتعال انگیز ھے. میں یہ چاھتا ھوں کہ فقہی اختلاف کو برداشت کیا جائے،اور نماز میں اسی طرح کا گلدستہ بنے جیسا کہ عربوں میں نماز کے دوران بنتا ھے یا جس کا نمونہ حج پہ لوگ دیکھتے ھیں کہ کوئی ھاتھ چھوڑے کھڑا ھے تو کوئی ناف پہ باندھے ھوئے کسی نے ھاتھ عین سینے کے درمیان ھیں تو کسی نے دونوں ھاتھ جوڑ کر دل کے اوپر رکھے ھوئے ھیں گویا اللہ کو سینے سے لگا رکھا ھے.

بقول ھمارے ایک ساتھی کے جب سے وہ کنیڈا منتقل ھوئی ھیں ،خود ڈاکٹر صاحبہ کے خیالات میں بھی کافی تبدیلی آئی ھے اور ان میں بھی اب وسعتِ نظری پیدا ھوئی ھے ،اس سلسلے میں اگر کوئی پُل کا کام کر سکتا ھے تو وہ تبلیغی جماعت ھے،جو اھل سنت میں تازہ پانی کے جھرنے کی طرح ھے،اس کے باھر کے ممالک میں رھنے والے ممبران تو خیر سے وسیع النظر ھیں جو روزانہ سینے پر ھاتھ باندھنے والوں اور رفع یدین کرنے والوں میں پانچوں نمازیں پڑھتے ھیں ،اور جو پاکستان کے ان علماء سے زیادہ وسیع النظر اور وسیع القلب ھیں جنہیں زندگی بھر کبھی ایسا منظر دیکھنا نصیب نہیں ھوتا ،پھر جو تبلیغی جماعتیں باھر جاتی ھیں انہیں بھی وھاں قسم قسم کے مسلمانوں سے واسطہ پڑتا ھے،اس کے علاوہ جو تبلیغی ملک کے اندر ھیں وہ بھی سالانہ اجتماع پر عربوں کو رفع یدین کرتے دیکھتے ھیں تو ان میں بھی اس معاملے میں انس اور برداشت پیدا ھوتی ھے،وہ الہدی کو ساتھ لے کر چل سکتے ھیں ،خاص طور پر مولانا طارق جمیل صاحب جنہوں نے نہ صرف الہدی میں خطاب کیا بلکہ اس تحریک کو ایک نعمت قرار دیا ،یہ لوگ اگر چاھئیں اور الہدی والے ان کے خلوص و اخلاص کو اھمیت دیں تو عالمِ اسلام کی یہ دو تحریکیں عالم اسلام کی کایا پلٹ سکتی ھیں ،اس بات کو ڈاکٹر ادریس صاحب بہت اچھی طرح سمجھتے ھیں ،(منقول)