(Audio) کیا میت کی طرف سے قربانی کرنا جائز ہے؟
از
ام عبد الرب بنت عبد الرحمن کیلانی صاحبہ
مطلق اور مقید تکبیرات کیا ہیں؟ اور یہ کس وقت شروع کی جاتی ہیں؟
:تکبیرات کی دو قسمیں ہیں
: مطلق تکبیرات
یعنی جن کیلئے کوئی خاص وقت مقرر نہیں ہے، بلکہ ہر وقت، صبح وشام، نمازوں سے پہلے اور بعد میں کسی بھی لمحے کہی جاسکتی ہیں۔
:مقید تکبیرات
یعنی وہ تکبیرات جو صرف نمازوں کے بعد کہی جاتی ہیں۔
چنانچہ مطلق تکبیرات عشر ذو الحجہ، اور ایام تشریق کے دوران کسی بھی وقت کہی جاسکتی ہیں، جسکا وقت ذو الحجہ کی ابتدا ہی سے شروع ہو جائے گا (یعنی: ذو القعدہ کے آخری دن سورج غروب ہونے سے وقت شروع ہوگا) اور ایام تشریق کے آخر تک جاری رہے گا (یعنی: 13 ذو الحجہ کے دن سورج غروب ہونے تک)
جبکہ مقید تکبیرات کا وقت عرفہ کے دن فجر سے شروع ہوکر آخری یوم تشریق کے ختم ہونے تک جاری رہتا ہے-اس دوران مطلق تکبیرات بھی کہی جائیں گی- چنانچہ جس وقت امام فرض نماز سے سلام پھیر کر تین بار: “اَسْتَغْفِرُ اللَّهَ” کہنے کے بعد: “اَللَّهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْكَ السَّلَامُ تَبَارَكْتَ يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ ” کہہ لے تو تکبیرات کہے گا۔
مذکورہ بالا مقید تکبیرات کی تفصیل ان لوگوں کیلئے ہے جو حج نہیں کر رہے، جبکہ حجاج کرام مقید تکبیرات یوم نحر [دس ذو الحجہ] کی ظہر سے شروع کرینگے۔
واللہ اعلم
دیکھیں: “مجموع فتاوى ابن باز ” رحمہ الله (13/17 ) اور “الشرح الممتع ” از: ابن عثيمين رحمہ الله (5/220-224) .
https://islamqa.info/ur/answers/36627/
میں اپنے فوت شدہ والدین کی طرف سے قربانی کیسے کر سکتا ہوں؟
الحمد للہ
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے:
اصل تویہی ہے کہ قربانی کرنا زندہ لوگوں کے حق میں مشروع ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اوران کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اپنی اوراپنے اہل وعیال کی جانب سے قربانی کیا کرتے تھے۔
اور کچھ لوگ جو یہ گمان کرتے ہیں کہ قربانی فوت شدگان کے ساتھ خاص ہے تو اسکی کوئی اصل نہيں۔
فوت شدگان کی جانب سے قربانی کی تین اقسام ہيں:
🌴 پہلی قسم:
کہ زندہ کے تابع ہوتے ہوئے ان کی جانب سے قربانی کی جائے
مثلا کوئی شخص اپنی اور اپنے اہل وعیال کی جانب سے قربانی کرے اوراس میں وہ زندہ اور فوت شدگان کی نیت کرلے (تو یہ جائز ہے)۔
اس کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی ہے جو انہوں نے اپنی اور اپنے اہل وعیال کی جانب سے تھی اور انکے اہل وعیال میں کچھ پہلے فوت بھی ہوچکے تھے۔
🌴 دوسری قسم:
یہ ہے کہ فوت شدگان کی جانب سے ان کی وصیت پرعمل کرتے ہوئے قربانی کرے (اور یہ واجب ہے لیکن اگراس سے عاجز ہو تو پھر نہيں)
اس کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے:
تو جو کوئی بھی اسے (وصیت کو) سننے کے بعد تبدیل کرے تواسکا گناہ ان پر ہے جو اسے تبدیل کرتے ہيں یقینا اللہ تعالی سننے والا جاننے والا ہے۔
🌴 تیسری قسم:
زندہ لوگوں سے علیحدہ اورمستقل طور پر فوت شدگان کی جانب سے قربانی کی جائے (وہ اس طرح کہ والد کی جانب سے علیحدہ اور والدہ کی جانب سے علیحدہ اورمستقل قربانی کرے) تو یہ فقھاء حنابلہ کے نزدیک جائز ہے، اس میں انہوں نے صدقہ پر قیاس کیا ہے، انہوں نے اس کوبیان کیا ہے کہ اس کا ثواب میت کو پہنچے گا اوراسے اس سے فائدہ ونفع ہو گا۔
لیکن ہمارے نزدیک فوت شدگان کے لیے قربانی کی تخصیص سنت طریقہ نہيں ہے، کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فوت شدگان میں سے بالخصوص کسی ایک کی جانب سے کبھی کوئی قربانی نہیں کی، نہ ہی انہوں نے اپنے چچا حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کی جانب سے کی حالانکہ وہ ان کے سب سے زيادہ عزيز اقرباء میں سے تھے۔
اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں فوت ہونے والی اپنی اولاد، جن میں تین شادی شدہ بیٹیاں اور تین چھوٹے بیٹے شامل ہیں، کی جانب سے قربانی کی، اور نہ ہی اپنی سب سے عزيز بیوی خدیجہ رضى اللہ تعالی عنہا کی جانب سے قربانی کی حالانکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے پیاری تھیں۔
اوراسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عهد مبارک میں کسی صحابی سے بھی یہ عمل نہيں ملتا کہ انہوں نے اپنے کسی فوت شدہ کی جانب سے قربانی کی ہو۔
اورہم اسے بھی غلط سمجھتے ہیں جو آج کل بعض لوگ کرتے ہیں کہ پہلے برس فوت شدہ کی جانب سے قربانی کرتے ہیں اور اسے (حفرہ قربانی) کا نام دیتے اور یہ اعتقاد رکھتے ہيں کہ اس کے ثواب میں کسی دوسرے کوشریک ہونا جائز نہيں، یا پھروہ اپنے فوت شدگان کے لیے نفلی قربانی کرتے ہوئے یا انکی وصیت پرعمل کرتے ہوئے، اپنی اوراپنے اہل وعیال کی طرف سے قربانی کرتے ہی نہيں۔
اگر انہيں یہ علم ہو کہ جب کوئی شخص اپنے مال سے، اپنی اوراپنے اہل وعیال کی جانب سے قربانی کرتا ہے تواس میں زندہ اورفوت شدگان سب شامل ہوتے ہيں تو وہ کبھی بھی یہ کام چھوڑ کراپنے اس کام کو نہ کریں۔